Wo Sika kion Talash kerein jo Qismat ke .. - Bazmea

Breaking

Post Top Ad

Post Top Ad

Unlimited Web Hosting

Monday, 16 December 2019

Wo Sika kion Talash kerein jo Qismat ke ..


Wo Sika kion Talash kerein jo Qismat ke 
Thaili mein Dala hi Nehi Gya Tha


آؤ سناؤں ایک قصہ ایک پرانی کہانی
غور سے سننا ہر ایک کی ہے یہی کہانی




کہیں گزرے وقتوں میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا جو ایک بڑی سلطنت کا کرتا دھرتا ہوا کرتا تھا جس کے پاس مال و دولت کی بھرمار تھی ، ہر وقت خدمت کے لیے غلام و لونڈیاں بے شمار تھی اور محافظوں کی بھی ایک لمبی قطار تھی۔ لیکن وہ بجھا بجھا رنجیدہ رنجیدہ پسیجہ پسیجہ رہتا تھا اس کے بے چارگی کی انتہا دیکھیں کہ وہ اپنے ہی ایک غلام سے حسد کرتا تھا دل ہی دل میں کڑتا جلتا رہتا تھا کیونکہ اس کا یہ غلام وہ گل تھا جو خزاوں میں بھی کھلا رہتا تھا اور اگرمصیبتیں بھی اسے گھیرا ڈال لیتی  تو اس کا حوصلہ کبھی کم نہیں ہوتا تھا اس  کے چہرے کا رنگ کبھی مدھم نہیں پڑتا تھا۔ یہی بات بادشاہ کو ناگوار گزرتی تھی دن تو کیا راتوں کو اس کی آنکھوں سے نیندیں بھی بےزار گزرتی تھیں۔ تو ایک دن دل کے بوجھ کو اتارنے کے لیے اپنے ہی وزیر کو دربار عالیہ میں بلایا اور اپنا سارا غم اسے سنایا اور اپنے اس غلام کی طرف کر کہ اشارہ اور ایک واویلہ مچایا کہ اس حالت میں مجھے اس گندے کالے حبشی غلام نے پہنچایا یہ سب کچھ اس کا ہے کیا کرایا ۔وزیر نے جب یہ سب بادشاہ کی زبانی سنا سنایا تو ایکدم کے لیے ہکا بکا رہا گیا اور وزیر نے من ہی من میں سوچا کہ ایک بادشاہ سب کچھ ہوتے ہوئے آج مجھے اپنے غلام سے بھی زیادہ کنگال نظر آیا بے محال نظر آیا بلکہ بری طرح نڈھال نظر آیا۔ ان سوچوں کے بھنور میں الجھے ہوئے وزیر کو بادشاہ نے یوں سلجھایا کہ وزیر کے بازو سے پکڑ کر اسے ہلایا اور اسے اپنا ایک حکم کچھ یوں سنایا کہ اس مسلے کا حل نکالیں، میرے دل سے اسے بہیودہ غلام کی کڑتن نکالیں ،کسی طریقے سے اس غلام کو چکرویو میں ڈالو۔ وزیر نے کہا آپ میرے آقا ہیں میں ہوں آپکا خادم وزیر آپ میرے بادشاہ عالم پناہ ہیں ۔ وزیر نے پھر ایک فریب بنا ایک تھیلی میں ڈال کے ننانوے سکے اور اس کے ماتھے پر سو لکھا، اور وزیر نے اس تھیلی کو ہاتھ میں تھام کر بادشاہ کو ساتھ لیا اور اس بستی کی طرف چل دیے جس میں وہ غریب غلام رہتا تھا ۔ غلام کے گھر کو پتا لگا کر اس کے دروازے پر وزیر اور بادشاہ پہنچے تو وزیر نے سکوں سے بھی تھیلی کو غلام کے گھر کی دہلیز پر رکھ دیا اور دروازے کی کنڈی کھڑکا کر وزیر اور بادشاہ  سائڈ پر چھپ کر دروازے کی طرف دیکھنے لگے جیسے ہی غلام کے کانوں میں کنڈی کی آواز گونجی تو غلام دروازے کی طرف چل کر آیا دروازہ کھولا تو باہر ادھر اّدھر دیکھا تو اسے گلی میں کچھ نظر نا آیا تو جیسے ہی وہ مڑنے لگا تو اس کی نظر اپنے دروازے کی دہلیز پررکھی تھیلی پر پڑی تو اس نے جھک کر وہ تھیلی اّٹھائی اور اسے ٹٹولا اور اسے اپنے ہاتھ میں تھام کر گھر کے اندر چلا گیا ، جب کہ یہ سارہ سین وزیر اور بادشاہ چھپ کر ملاحظ کر رہے تھے ۔ بادشاہ نے وزیر سے استسفار کیا کہ غلام تو بظاہر پریشان نہیں نظر آیا بادشاہ نے وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے  کہا کہ  اگر مجھے غلام  پریشان بے حال نا ہو سکا تو میں تمہارا سر تن سے جدا کر دوں گا۔ وزیر نے بادشاہ کو بڑے یقین سے کہا کہ یہ ہنر جو میں نے آزمایا ہے یہ صدیوں سے آزمایا جا رہا ہے آپ بے فکرمند ہو جائے اور دیکھتے جائے اسی دوران غلام دوبارہ اپنے دروازے کے باہر آیا اور بڑا پریشان نظر آیا اور ادھر اّدھرے زمین پر جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو مگر اسے جب کچھ نا ملا تو وہ واپس گھر کے اندر چلا گیا جب بادشاہ نے غلام کو پریشان دیکھا توبڑا خوش ہوا اور وزیر کی طرف دیکھا مسکراتے ہوئے تو وزیر نے بھی دھیمی سی مسکراہٹ سے جواب دیا اور کہا ابھی آپ مزید غلام کو پریشان ہوتے ہوئے دیکھیں گے، بلکیں آپ ملاحظ کیجئے وزیر نے یہ الفاظ ادا کیے ہی تھے کہ  اسی دوران  پھر غلام  اپنے گھر کے دروازے پر واپس آیا اور ساتھ اس کے بیوی بچے بھی  اب کی بار ساتھ ہیں اور وہ بھی پریشان کچھ ڈھونڈتے ہوئے نظروں کو دروازے کی دہلیز پر جمائے ہوے کچھ جیسے کسی تلاش میں ہو لیکن جب انھیں دروازے سے باہر اور دہلیز پر کچھ نا ملا تو وہ مایوسی کے عالم میں واپس گھر کے اندر چلے گے۔ بادشاہ نے وزیر سے پوچھا آخر غلام اور اس کے بیوی بچے کیا ڈھونڈ رہے تھے اور اے وزیر آخر تم نے ایسا کیا کییا کہ یہ سب پریشان ہوگے جب کہ یہ غلام تو اب تک بڑی سے بڑی پریشانی مصیبت میں نہیں گھبرایا اور نا ہی پریشان ہوا لیکن آج میں نے اسے پریشان دیکھا بلکے اس کی پوری فیملی کو پریشان دیکھا ہے تو یہ کیسے ہوا میرے پیارے وزیر مجھے بتاو گے ۔ تو وزیر نے کہا میرے آقا میں نے بس ایک چال یہ چلی ہے کہ جو تھیلی سکوں سے بھری ہم نے غلام کے دروازے کی دہلیز پر رکھی تھی تو اس کے ماتھے پر باہر کی جانب میں نے سو سکے لکھے تھے کہ اس تھیلی میں  موجود ہیں جب کہ میں نے تھیلی کے اندر ننانوے سکے ڈالے تھے تو یہ غلام اور اس کے بیوی بچے وہ ایک سکہ تلاش کر رہے تھے جو اس تھیلی میں موجود ہی نہیں تھا۔ او ہو ہا بادشاہ نے یہ سن کر ایک قہقہ لگایا اور کہا چلیں میرے وزیر باقی کی پریشانی صبح دربار میں دیکھیں گے ، یہ کہ کر وزیر اور بادشاہ اپنے دربار میں 
واپس آگئے ۔

اگلی صبح سب تریتبیں الٹی ہوئی تھی جو غلام وقت کا پابند تھا آج وہ دربار میں بہت دیر سے آیا اور اس  کا چہرہ فک زرد  اور آنکھیں اس کی سوجھیں ہوئی سرخ  جیسے وہ ساری رات سویا نا ہو اور اس کی حواس باختیاں کا یہ حال یہ تھا کہ بادشاہ اگر اس سے پلیٹ منگواتا تو وہ گلاس اٹھا لاتا ، اگر بادشاہ اپنی تلوار منگواتا تو وہ بادشاہ کی زرہ اٹھا لاتا ، پانی منگواتا تو گملا پیش کر دیتا  شام تک  یہی سلسلہ چلتا رہا آخر کار بادشاہ نے یہ سب دیکھ کر غلام سے اس حالت کا جواز پوچھ ہی لیا کہ آخر آج تم اے میرے بدنما غلام ہو کیا گیا اتنے بکھلائے ہوئے کیوں ہو تو بادشاہ کے استفسار پر غلام نے کل شام جو واقعہ پیش آیا تھا وہ سارا بتا دیا کہ کیسے انہیں شام کو اپنے دروازے کی دہلیز پر ایک سکوں سے بھری تھیلی ملی جس میں ایک سکہ کم تھا اور ہم اس سکے کی تلاش  میں کیسے کیسے مارے پھرتے رہے پر وہ سکہ نا ملا اتنے میں وزیر بھی آگیا اور اس نے کہا اے غمزدا غلام یہ سارا منصوبہ ہم نے بنایا تھا اور بادشاہ عالم پناہ بھی اس منصوبے میں شامل تھے دراصل تم خوش باش پہلے اس لیے رہتے تھے کے تہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں تھا جو ملتا تھا اس پر شکر کرتے تھے اور جو نہیں ملتا اس پر صبر لیکن جب تمہں وہ تھیلی ملی تو اس میں جو سکے ملے تم نے شکر کرنے کی بجائے اس سکے کی تلاش میں لگ گئے جو سکہ اس تھیلی میں ہے ہی نہیں تھا اور اس ایک سکے کی تلاش میں تم نے ان ننانوے سکوں کی خوشیاں بھی گنواہ دی ۔ دراصل یہ کہانی ہم سب انسان کی ہے کہ ہمارے مقدر میں جو خوشیاں رکھ دی گئ ہیں جو کامیابیاں رکھ دی گئی ان کا شکر کرنے کی بجائے ان کامیابیوں کو سلیبریٹ کرنے کی بجائے ان چندہ خوشی یا کامیابی جو ہمارے مقدر میں رب نے رکھی ہی نہیں اس کی تلاش میں اپنی ساری زندگی کو غمزدہ اور بے رنگ کر دیتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

Thanks and response you soon

Post Top Ad

PopAds.net - The Best Popunder Adnetwork